No title

Farogh-e-Taleem
0

 ایمانداری کی خوشبو


گرمی کا موسم اپنی شدت پکڑنے لگا تھا۔ اپریل کی بیسویں تاریخ تھی۔ دوپہر کی دھوپ میں سڑکیں جلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ ہوا کا ایک جھونکا بھی رک گیا تھا جیسے سورج کی تپش کے سامنے دم توڑ چکا ہو۔ محلے کی گلیوں میں سناٹا سا چھایا تھا۔ ایسے میں اچانک ثوبیہ کے گھر کا دروازہ کھٹکا۔

دروازے کی دستک میں مانوس سی نرمی تھی۔ ثوبیہ کی امی نے چادر سنبھالتے ہوئے دروازہ کھولا تو سامنے دو عورتیں کھڑی تھیں۔ ایک ثوبیہ کی خالہ اور دوسری ان کی خالہ زاد بہن۔ دونوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھری ہوئی تھیں۔

"ارے واہ، آپ لوگ! کب آئیں؟ اندر آئیے، بہت خوشی ہوئی آپ کو دیکھ کر!" ثوبیہ کی امی کے لہجے میں خوشی صاف جھلک رہی تھی۔

انہوں نے جلدی سے ان دونوں کو کمرے میں بٹھایا، ٹھنڈے پانی کا گلاس پیش کیا، اور مسکراتے ہوئے کہا،

"میں ابھی کچھ ٹھنڈا پینے کے لیے بھجواتی ہوں۔"

امی نے زور سے آواز لگائی،

"ثوبیہ بیٹا! ذرا ادھر آؤ!"

اندر سے ثوبیہ کی پیاری سی آواز آئی،

"جی امی!"

وہ دوپٹے کا کونہ ٹھیک کرتی ہوئی کمرے میں آ گئی۔ چہرے پر معصومیت، آنکھوں میں چمک۔

امی نے کہا،

"بیٹا، تمہارا بھائی تو بازار گیا ہوا ہے۔ مہمان آئے ہیں، ذرا یہ سو روپیہ لو، دکان سے جوس لے آؤ۔"

ثوبیہ نے تابعداری سے پیسے لیے، دوپٹہ سنبھالا اور دروازے سے باہر نکل گئی۔ دھوپ تیز تھی، لیکن اس کے قدموں میں چستی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ مہمانوں کو ٹھنڈا جوس ملے گا تو وہ خوش ہوں گے، امی بھی مسکرائیں گی۔

مگر جیسے ہی وہ دکان کے قریب پہنچی، اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔

اس نے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی دیکھی، پھر دوبارہ دوپٹے کی جھولی — مگر پیسے کہیں نہیں تھے۔

ایک لمحے کے لیے جیسے زمین رک گئی۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔

"ہائے اللہ! پیسے کہاں گئے؟"

وہ بڑبڑانے لگی۔ آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔

"امی ناراض ہوں گی... مہمان بیٹھے ہیں... میں کیا کہوں گی؟"

ثوبیہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ وہ دکان کے سامنے کھڑی رو رہی تھی۔

اسی وقت دکاندار، جو قریب ہی کھڑا تھا، اس کی حالت دیکھ کر متوجہ ہوا۔

اور قریب ہی ایک چھوٹا سا بچہ، علی، جو اپنی ماں کے کہنے پر گھر کا کچھ سودا لینے آیا تھا، وہ بھی اس منظر کا گواہ بنا۔

وہ آہستہ آہستہ ثوبیہ کے قریب آیا اور نرم لہجے میں بولا،

"چھوٹی بہنا، کیوں رو رہی ہو؟ کیا ہوا؟"

ثوبیہ نے نم آنکھوں کے ساتھ بتایا،

"میرے گھر مہمان آئے ہیں۔ امی نے مجھے سو روپیہ دیا تھا کہ جوس لے آؤں، مگر وہ راستے میں کہیں گر گیا۔ اب میں خالی ہاتھ کیسے جاؤں؟"

علی نے ایک لمحے کے لیے اس کی بات سنی، پھر اپنی جیب سے سو روپیہ نکالا اور کہا،

"رونے کی کوئی ضرورت نہیں بہنا۔ یہ لو، یہ سو روپیہ رکھو۔ جوس لے جاؤ، مہمانوں کو پلاؤ۔"

ثوبیہ حیران رہ گئی۔

"مگر... بھیا، یہ تو آپ کے پیسے ہیں۔"

علی مسکرایا،

"پیسے تو آتے جاتے رہتے ہیں، لیکن کسی کے چہرے کی مسکراہٹ قیمتی ہوتی ہے۔ میری چھوٹی بہن روتی ہوئی اچھی نہیں لگتی۔"

ثوبیہ نے شکریہ ادا کیا، جوس خریدا، اور گھر کی طرف دوڑ گئی۔

دکاندار یہ سارا منظر خاموشی سے دیکھتا رہا۔ جب ثوبیہ نظروں سے اوجھل ہو گئی، تو اس نے علی کو بلایا۔

"بیٹا، ایک بات بتاؤ۔ کیا تم اس بچی کو جانتے ہو؟"

علی نے نفی میں سر ہلایا۔

"نہیں انکل، نہیں جانتا۔"

"پھر تم نے اسے پیسے کیوں دیے؟"

علی مسکرا کر بولا،

"انکل، مدد کرنے کے لیے کسی کو جاننا ضروری نہیں ہوتا۔ وہ معصوم بچی رو رہی تھی۔ اگر میری اپنی بہن ہوتی تو کیا میں دیکھ سکتا کہ وہ یوں پریشان کھڑی ہو؟ ہر روتی آنکھ کسی بہن، کسی بیٹی، کسی ماں کی ہوتی ہے۔ میں نے صرف اپنا فرض نبھایا ہے۔"

دکاندار کے چہرے پر حیرت اور فخر کے ملے جلے جذبات نمودار ہوئے۔

"سبحان اللہ! آج کے زمانے میں بھی ایسے بچے ہیں، یہ دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔"

کچھ دیر گزری ہی تھی کہ اچانک ثوبیہ دوبارہ آتی نظر آئی۔

دکاندار اور علی دونوں چونک گئے۔

ثوبیہ کے ہاتھ میں کچھ تھا۔ وہ علی کے قریب آئی، اس کے ہاتھ میں سو روپیہ رکھا اور بولی،

"بھیا، یہ لیجیے۔ میں راستے میں جا رہی تھی تو مجھے اپنا گرا ہوا نوٹ زمین پر ملا۔ میں فوراً واپس آ گئی کہ آپ کے پیسے لوٹا دوں۔"

علی کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی، آنکھوں میں چمک سی اتر آئی۔

"بہنا، تم پہلے جوس تو پلاؤ، پھر پیسے دے دیتی۔"

ثوبیہ بولی،

"نہیں بھیا، اگر میں جوس اور پیسے دونوں لے کر جاتی تو امی سمجھتیں کہ میں نے جھوٹ بولا ہے۔ سچائی اور ایمان داری کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔"

دکاندار کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

اس نے دونوں بچوں کو دیکھا اور بولا،

"تم دونوں نے آج مجھے زندگی کا سب سے قیمتی سبق دیا ہے —

ایک نے احساس سکھایا، اور دوسری نے ایمانداری۔

اگر ہماری آنے والی نسلوں میں یہ دونوں خوبیاں رہیں تو دنیا کبھی برباد نہیں ہوگی۔"

دکان کے سامنے وہ منظر جیسے روشنی بن گیا۔

دو چھوٹے بچے، مگر کردار اتنے بڑے کہ بڑے بڑے انسانوں کو شرما دیں۔

ثوبیہ کے دامن میں ایمان داری کی چمک تھی، اور علی کے دل میں انسانیت کی روشنی۔

دھوپ اب بھی تیز تھی، مگر اس دن کے آخر میں ایک ٹھنڈی سی ہوا ضرور چلی —

شاید ایمانداری اور نیکی کی خوشبو اپنے اردگرد پھیلا گئی تھی۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)